مانگے ہے ترے ملنے کو بے طرح سے دل آج

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مانگے ہے ترے ملنے کو بے طرح سے دل آج
by قائم چاندپوری

مانگے ہے ترے ملنے کو بے طرح سے دل آج
کل کیا ہے جو ملنا ہے مری جان تو مل آج

پھر صبح سے آشوب قیامت ہے جہاں میں
چہرہ پہ ترے کن نے بنایا ہے یہ تل آج

اے گریہ تو خاطر سے مری کیجو نہ صرفہ
میں خون دل خستہ کیا تجھ پہ بحل آج

چاہے ہے اگر کل کو تری نشو و نما ہو
دل کھول کے دانہ کی طرح خاک میں رل آج

کیا سینہ جو تڑپھوں کو نگہ کی تری جھیلے
اس تیر سے رہ جائے نہ فولاد کی سل آج

یارب نہ پڑے اصل سے اپنی کوئی یاں دور
یہ آب تھا سب جتنی کہ دیکھے ہے تو گل آج

قائمؔ یہ غضب کل تو نہ ٹوٹے تھا ترے پر
دیکھا ہے کہیں تیں وہ بت مہر گسل آج

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse