مانگیں نہ ہم بہشت نہ ہو واں اگر شراب

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مانگیں نہ ہم بہشت نہ ہو واں اگر شراب
by میر مہدی مجروح

مانگیں نہ ہم بہشت نہ ہو واں اگر شراب
دوزخ میں ڈال دیجئے دیجے مگر شراب

زاہد کے بخت بد کی ہے خوبی وگرنہ کیوں
چھوڑے کوئی شراب کی امید پر شراب

توبہ تو ہم نے کی ہے پر اب تک یہ حال ہے
پانی بھر آئے منہ میں دکھا دیں اگر شراب

گویا شراب ہی سے بھرا عمر کا قدح
موت اس کی خوب ہے جو پیے عمر بھر شراب

سمجھا نہیں کہ جیتے ہیں مردے اسی طرح
چھڑکے وگرنہ کیوں وہ مری خاک پر شراب

ہے لطف زیست یہ کہ وہ بیٹھا ہو روبرو
بکھرے ہوں پھول ادھر تو دھری ہو ادھر شراب

بے خود کیا جہاں کو تری چشم مست نے
تھی کیسی اس پیالے میں اے فتنہ گر شراب

چشم سیاہ مست نگہ مست آپ مست
پیتا ہے دل لگی کو بت عشوہ گر شراب

توبہ میں ہم نہ کھائیں گے الزام کیا ہوا
اک آدھ یار پی گئے گر بھول کر شراب

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse