مارے غصے کے غضب کی تاب رخساروں میں ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مارے غصے کے غضب کی تاب رخساروں میں ہے
by شوق قدوائی

مارے غصے کے غضب کی تاب رخساروں میں ہے
کل تو تھی پھولوں میں گنتی آج انگاروں میں ہے

تب کی سوزش سے مرے چہرے کی سرخی دیکھنا
کچھ تمہیں خوش رو نہیں یہ پھر طرح داروں میں ہے

روح تیرے گھر کو چھوڑے یہ کبھی ممکن نہیں
جسم میرا خاک ہو کر اس کی دیواروں میں ہے

اتنی زردی ساری دنیا کی خزاں میں بھی نہ ہو
جتنی اور ظالم تری الفت کے بیماروں میں ہے

یا گھٹے کچھ عشق میرا یا بڑھے دنیا میں حسن
یہ تو نا کافی ہے جتنا ان دل آزاروں میں ہے

آئنے میں ڈالتا ہے رخ پہ میری سی نگاہ
تو بھی میرے ساتھ الفت کے گنہ گاروں میں ہے

قدرت اتنے ناز پیدا کر سکے گی یا نہیں
ان کا جتنا صرف تیرے ناز برداروں میں ہے

مسئلہ کثرت میں وحدت کا ہوا حل تم سے خوب
ایک ہی جھوٹ اور تمہارے لاکھ اقراروں میں ہے

قید میں کتنی بڑھی میرے جنوں کی کاہلی
اس سے کم ہے جتنی دنیا بھر کے بے کاروں میں ہے

چاند ہی کہہ دے جو دیکھا ہو کہیں تجھ سا حسیں
اس نے بھی دیکھی ہے دنیا یہ بھی سیاروں میں ہے

کفر نے اسلام کو شاید کہیں مارا کہ شوقؔ
ماتمی پوشاک سے کعبہ عزاداروں میں ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse