مائل ہوں گل بدن کا مجھے گل سیں کیا غرض

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مائل ہوں گل بدن کا مجھے گل سیں کیا غرض
by سراج اورنگ آبادی

مائل ہوں گل بدن کا مجھے گل سیں کیا غرض
کاکل میں اس کے بند ہوں سنبل سیں کیا غرض

خونیں دلوں کے قتل کوں سیدھی نگاہ بس
اس تیغ کوں فسان تغافل سیں کیا غرض

رسوائی جہاں سیں مجھے فکر کچھ نہیں
دیوانۂ جنوں کوں تأمل سیں کیا غرض

بس ہے غبار راہ لباس شہنشہی
سلطان بے خودی کوں تجمل سیں کیا غرض

جام مئے الست سیں بے خود ہوں اے سراجؔ
دور شراب و شیشۂ پر مل سیں کیا غرض

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse