مآل کار نہ کچھ بھی ہوا تو کیا ہوگا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مآل کار نہ کچھ بھی ہوا تو کیا ہوگا
by ہوش بلگرامی

مآل کار نہ کچھ بھی ہوا تو کیا ہوگا
نہ ہم رہے نہ زمانہ رہا تو کیا ہوگا

میں ہنس رہا ہوں زمانہ کی شاد کامی پر
چراغ عیش جو گل ہو گیا تو کیا ہوگا

مجھے فریب نہ دے اے طلسم خواب و خیال
رخ حیات اگر پھر گیا تو کیا ہوگا

ضمیر دہر میں وہ زندگی کی لہر کہاں
دلوں میں سوز محبت رہا تو کیا ہوگا

تلاش منزل ہستی ضرور ہے لیکن
نشان راہ نہ گر مل سکا تو کیا ہوگا

تمہیں یقیں ہے کہ ہے کھیل رقص بیتابی
جو میرے دل کو سکوں آ گیا تو کیا ہوگا

مآل موسم گل ہے خزاں تو پھر اے ہوشؔ
ہوئی بھی دعوت آب و ہوا تو کیا ہوگا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse