لے گیا گھر سے انہیں غیر کے گھر کا تعویذ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
لے گیا گھر سے انہیں غیر کے گھر کا تعویذ
by ریاض خیرآبادی

لے گیا گھر سے انہیں غیر کے گھر کا تعویذ
ہم نے دیکھا نہ سنا ایسے اثر کا تعویذ

دے کے بو زلف کی رکھ لو تہہ محرم دل کو
خواب میں پھر نہ ڈرو گے یہ ہے ڈر کا تعویذ

صدقے تیرے مجھے تسکین سے تسکین ہوئی
خط ترا تھا کہ مرے درد جگر کا تعویذ

ہو مبارک تجھے آنکھوں میں سمانا دن رات
زیب بازو رہے ہر وقت نظر کا تعویذ

رہ گیا غیر کے گھر جائیے بھی لائیے بھی
آپ کے سر کی قسم آپ کے سر کا تعویذ

باندھ لے بہر خدا اپنے بھرے بازو پر
نظر بد سے بچائے گا نظر کا تعویذ

گھر گئے اپنے بتا کر وہ ہمیں راہ عدم
وصل کی شب کی نشانی ہے کمر کا تعویذ

ہاتھ بھی آئیں تو ہے ہاتھ لگانا مشکل
سر‌ بازو ہے بندھا خاص اثر کا تعویذ

ڈر سے ان کے بھرے بازو کئی کاغذ اترے
ہاتھ تھاما تھا شب وصل کہ سرکا تعویذ

دل ہے اب مانگ کے آغوش میں دن رات ریاضؔ
یہ تو سر چڑھ کے بنا یار کے سر کا تعویذ

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse