لے کے دل مہر سے پھر رسم جفا کاری کیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
لے کے دل مہر سے پھر رسم جفا کاری کیا
by نظیر اکبر آبادی

لے کے دل مہر سے پھر رسم جفا کاری کیا
تم دل آرام ہو کرتے ہو دل آزاری کیا

تم سے جو ہو سو کرو ہم نہیں ہونے کے خفا
کچھ ہمیں اور سے کرنی ہے نئی یاری کیا

جوں حباب آئے ہیں ملنے کو نہ ہو چیں بہ جبیں
ہم سے اک دم کے لیے کرتے ہو بے زاری کیا

تیغ ابرو کی تو الفت نے کیا دل کو دو نیم
دیکھیں اب کرتی ہے کاکل کی گرفتاری کیا

پھر سناں مژۂ دل پر وہ اٹھاتا ہے نظیرؔ
زخم شمشیر نگہ آہ نہیں کاری کیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse