لے کے اپنی زلف کو وہ پیارے پیارے ہاتھ میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
لے کے اپنی زلف کو وہ پیارے پیارے ہاتھ میں
by سید یوسف علی خاں ناظم

لے کے اپنی زلف کو وہ پیارے پیارے ہاتھ میں
کہتے ہیں فتنوں کی چوٹی ہے ہمارے ہاتھ میں

ساقیا دونوں جہاں سے پھر تو بیڑا پار ہے
گر بط مے آئے دریا کے کنارے ہاتھ میں

عاشقوں کی آنکھ سے ہر دم برستا ہے لہو
رنگ پر ہے آج کل مہندی تمہارے ہاتھ میں

خوب ہے تیری حمایت پا کے لوٹے نقد دل
اے پری دزد حنائی مال مارے ہاتھ میں

حشر میں ہم سمجھے آیا یار کے خط کا جواب
نامۂ اعمال جب آیا ہمارے ہاتھ میں

جب کبھی دست حنائی سے کترتا ہے وہ شوخ
برق بن جاتے ہیں افشاں کے ستارے ہاتھ میں

منہ چڑھانا بے سبب ہر دم بگڑنا چھوڑ دو
ہو اگر غصے میں آئینہ تمہارے ہاتھ میں

دست ساقی جام جمشیدی سے بڑھ کر ہے مجھے
دونو عالم کے میں کرتا ہوں نظارے ہاتھ میں

وصل ہے اک شہسوار حسن سے شام و سحر
ہے عنان ابلق گردوں ہمارے ہاتھ میں

فکر تھی ان کو کہ کیوں کر کیجیے عاشق کو قتل
آ گئی تیغ ادا و ناز بارے ہاتھ میں

مثل شاخ گل لچکتی ہے کلائی بار بار
گجرے پھولوں کے ہیں یا کنگن تمہارے ہاتھ میں

وائے قسمت دیکھنے پائیں نہ ہم آنکھوں سے بھی
لے کے مشاطہ ترے گیسو سنوارے ہاتھ میں

کہتے ہیں افشاں کے ذرے لے کے پیشانی سے وہ
آسماں سے ہم نے یہ تارے اتارے ہاتھ میں

بند محرم کے وہ کھلواتے ہیں ہم سے بیشتر
آج کل سونے کی چڑیا ہے ہمارے ہاتھ میں

نبض پر مجھ دل جلے کے انگلیاں رکھیں اگر
اے مسیحا آگ لگ جائے گی سارے ہاتھ میں

ہاتھ آنا اب دل گم گشتہ کا ممکن نہیں
چھپ رہا دزد حنا جا کر تمہارے ہاتھ میں

دل مرا مٹھی میں لے کر مجھ سے کہتا ہے وہ شوخ
کیا ہے اے ناظمؔ بتاؤ تو ہمارے ہاتھ میں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse