لے چکے دل تو جنگ کیا ہے اب

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
لے چکے دل تو جنگ کیا ہے اب
by میر محمدی بیدار

لے چکے دل تو جنگ کیا ہے اب
آ ملو پھر درنگ کیا ہے اب

پی گئے خم کے خم نہ کی مستی
یاں شراب فرنگ کیا ہے اب

اس نگہ کا ہے دل جراحت کش
زخم تیغ و خدنگ کیا ہے اب

ہوں میں دریائے عشق کا غواص
خوف کام نہنگ کیا ہے اب

دید و وا دید تو ہوے باہم
شرم اے شوخ و سنگ کیا ہے اب

دل سے وحشی کے تئیں شکار کیا
صید شیر و پلنگ کیا ہے اب

تھی جو رسوائی ہو چکی بیدارؔ
پاس ناموس و ننگ کیا ہے اب

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse