لے دیدۂ تر جدھر گئے ہم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
لے دیدۂ تر جدھر گئے ہم
by مرزا محمد رفیع سودا

لے دیدۂ تر جدھر گئے ہم
ڈبرے جو تھے خشک بھر گئے ہم

تجھ عشق میں روز خوش نہ دیکھا
دکھ بھرتے ہی بھرتے مر گئے ہم

تیرا جو ستم ہے اس کی تو جان
اپنی تھی سو خوب کر گئے ہم

یہ قطعہ پڑھے تھا سوز دل سے
سودا کے جو رات گھر گئے ہم

جوں شمع لبوں پر آ رہا جی
تن تھا سو گداز کر گئے ہم

اتنی بھی پتنگ پیش قدمی!
گر شام نہیں سحر گئے ہم

ہوگی نہ کسی کو یہ خبر بھی
اس مجلس سے کدھر گئے ہم

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse