لیس ہو کر جو مرا ترک جفا کار چلے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
لیس ہو کر جو مرا ترک جفا کار چلے  (1900) 
by حبیب موسوی

لیس ہو کر جو مرا ترک جفا کار چلے
سیکڑوں خون ہوں ہر گام پہ تلوار چلے

ناتوانی نے انہیں دریا پہ جانے نہ دیا
اٹھ کے سو بار گرے راہ میں سو بار چلے

تیرا کوچہ ہے وہ اے بت کہ ہزاروں زاہد
ڈال کے سبحہ میں یاں رشتۂ زنار چلے

اے شہ حسن مکدر نہ ہو گر تیرا مزاج
خاک اپنی بھی جلو میں پس رہوار چلے

سن کے یہ گرمئ بازار تیری اے یوسف
نقد جاں رکھ کے ہتھیلی پہ خریدار چلے

ہے یقیں حشر میں بھی ایک نیا محشر ہو
اٹھ کے گر کاکل جاناں کے گرفتار چلے

فصل گل آئی اٹھا ابر چلی سرد ہوا
سوئے مے خانہ اکڑتے ہوئے مے خوار چلے

ہوگا احساں پئے گلگشت اگر تو صیاد
ساتھ لے کر قفس مرغ گرفتار چلے

دیر سے بیٹھے تھے مشتاق سخن سب یہ حبیبؔ
دیکھ اٹھتے ہی تیرے بزم سے حضار چلے

This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication.

Public domainPublic domainfalsefalse