لیجئے ختم ہوا گردش تقدیر کا رنگ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
لیجئے ختم ہوا گردش تقدیر کا رنگ
by میرزا الطاف حسین عالم لکھنوی

لیجئے ختم ہوا گردش تقدیر کا رنگ
آئیے دیکھیے مٹتی ہوئی تصویر کا رنگ

ہم نے جھیلی ہیں زمانے میں کشش کی کڑیاں
ہم سے پوچھے کوئی بگڑی ہوئی تقدیر کا رنگ

ذکر تدبیر عبث فکر رہائی بے سود
جب کہ مٹتا نظر آنے لگا تقدیر کا رنگ

ہم بھی آئے ہیں کفن باندھ کے سر سے قاتل
دیکھنا ہے تری چلتی ہوئی شمشیر کا رنگ

کیا بتاؤں میں تمہیں سوز دروں کی حد کو
دن میں سو بار بدل جاتا ہے زنجیر کا رنگ

اف رے وہ زور جوانی کہ الٰہی توبہ
آئنہ توڑ کے نکلا تری تصویر کا رنگ

ہم سمجھتے ہیں زمانے کی روش کو عالمؔ
ہم نے دیکھا ہے بدلتے ہوئے تقدیر کا رنگ

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse