لیتے لیتے کروٹیں تجھ بن جو گھبراتا ہوں میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
لیتے لیتے کروٹیں تجھ بن جو گھبراتا ہوں میں
by بخش ناسخ

لیتے لیتے کروٹیں تجھ بن جو گھبراتا ہوں میں
نام لے لے کر ترا راتوں کو چلاتا ہوں میں

غیر جب کہتا ہے اس پر میں بھی مرتا ہوں تب آہ
وہ تو کیا مرتا ہے بس غیرت سے مر جاتا ہوں میں

آ نکلتا ہے کبھی پر بات وہ کرتا نہیں
بولتا ہے تو یہ کہتا ہے کہ اب جاتا ہوں میں

تو وہ ہے آتش کا پرکالہ کہ تیرے سامنے
آفتاب آ کر کہے جاڑے سے تھراتا ہوں میں

ناتوانی نے نکل جانے کا ڈر تو کھو دیا
یار کو اب اپنے مر جانے سے دھمکاتا ہوں میں

گر چلیں راہ طلب میں توڑ ڈالوں اپنے پاؤں
بس کبھی ساقی کے آگے ہاتھ پھیلاتا ہوں میں

ابر کو دیکھا جو ساقی نے نگاہ مست سے
رعد بولا اب مئے گل رنگ برساتا ہوں میں

دوڑتے ہیں پاؤں جب دامان صحرا کی طرف
ہاتھ بھی سوئے گریباں ساتھ دوڑاتا ہوں میں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse