لیتا ہے جان میری تو میں سر بدست ہوں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
لیتا ہے جان میری تو میں سر بدست ہوں
by نظیر اکبر آبادی

لیتا ہے جان میری تو میں سر بدست ہوں
اے یار میں تو کشتۂ روز الست ہوں

اک دم کی زندگی کے لیے مت اٹھا مجھے
اے بے خبر میں نقش زمیں کی نشست ہوں

تو مست کر شراب سے اے گل بدن مجھے
ظالم میں تیری چشم گلابی سے مست ہوں

دور از طریق مجھ کو سمجھیو نہ زاہدا
گر تو خدا پرست ہے میں بت پرست ہوں

ان سنگ دل بتوں کا گلہ کیا کروں نظیرؔ
میں آپ اپنے شیشۂ دل کی شکست ہوں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse