لیا نہ ہاتھ سے جس نے سلام عاشق کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
لیا نہ ہاتھ سے جس نے سلام عاشق کا
by شاہ نصیر

لیا نہ ہاتھ سے جس نے سلام عاشق کا
وہ کان دھر کے سنے کیا پیام عاشق کا

قصور شیخ ہے فردوس و حور کی خواہش
تری گلی میں ہے پیارے مقام عاشق کا

غرور حسن نہ کر جذبۂ زلیخا دیکھ
کیا ہے عشق نے یوسف غلام عاشق کا

ترے ہی نام کی سمرن ہے مجھ کو اور تسبیح
تو ہی ہے ورد ہر اک صبح و شام عاشق کا

وفور عشق کو عاشق ہی جانتا ہے نصیرؔ
ہر اک سمجھ نہیں سکتا کلام عاشق کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse