لگا جب عکس ابرو دیکھنے دل دار پانی میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
لگا جب عکس ابرو دیکھنے دل دار پانی میں
by شاہ نصیر

لگا جب عکس ابرو دیکھنے دل دار پانی میں
بہم ہر موج سے چلنے لگی تلوار پانی میں

نہانا مت تو اے رشک پری زنہار پانی میں
حباب ایسا نہ ہو شیشہ بنے اک بار پانی میں

سنا اے بحر خوبی تیری اٹھکھیلی سے چلنے کی
اڑائی رفتہ رفتہ موج نے رفتار پانی میں

جھلک اس تیرے کفش پشت ماہی کی اگر دیکھے
کرے قالب تہی ماہی بھی پھر لاچار پانی میں

نہیں لخت جگر یہ چشم میں پھرتے کہ مردم نے
چراغ اب کر کے روشن چھوڑے ہیں دو چار پانی میں

لب دریا پہ دیکھ آ کر تماشا آج ہولی کا
بھنور کالے کے دف باجے ہے موج اے یار پانی میں

کہوں کیا ساتھ غیروں کے تو اس بے دید نے ہمدم
نہانے کے لیے ہرگز نہ کی تکرار پانی میں

کہا میں نے جو اتنا رکھ قدم اس دیدۂ تر پر
لگا کہنے کہ آتی ہے مری پیزار پانی میں

نصیرؔ آساں نہیں یہ بات پانی سخت مشکل ہے
اٹھائی ریختے کی تو نے کیا دیوار پانی میں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse