لگائے بیٹھے ہیں مہندی جو میرے خوں سے پوروں میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
لگائے بیٹھے ہیں مہندی جو میرے خوں سے پوروں میں
by عاشق اکبرآبادی

لگائے بیٹھے ہیں مہندی جو میرے خوں سے پوروں میں
یہی تو رہزنوں میں ہیں یہی ہیں دل کے چوروں میں

پڑے رہتے ہیں اکثر سوئے مشکیں روئے جاناں پر
بہت دیکھا ہے ہم نے اتفاق ان کالے گوروں میں

لگائی آگ ان کے حسن عالم سوز نے ہر سو
جلانے چو لکھا بیٹھے ہیں یوں کورے سکوروں میں

وفور صحبت اغیار سے کچھ ایسے کھل کھیلے
نہ وہ جھیپیں ہزاروں میں نہ شرمائیں کروروں میں

ہمیں کوئے بتاں سے دو قدم اٹھنے نہیں دیتی
ہماری ناتوانی ان دنوں ہے ایسے زوروں میں

اماں دیتا نہیں وہ چاہنے والوں کو مر کر بھی
ہمارے نام کو ظالم نے پٹوایا ڈھنڈوروں میں

مرے نالوں کا عاشقؔ رنگ اڑایا عندلیبوں نے
خرام یار کی شہرت ہوئی سارے چکوروں میں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse