لکھ دے عامل کوئی ایسا تعویذ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
لکھ دے عامل کوئی ایسا تعویذ
by حفیظ جونپوری

لکھ دے عامل کوئی ایسا تعویذ
یار ہو جائے گلے کا تعویذ

کب مسخر یہ حسیں ہوتے ہیں
سب یہ بیکار ہے گنڈا تعویذ

نہ ہوا یار کا غصہ ٹھنڈا
بارہا دھو کے پلایا تعویذ

سر سے گیسو کی بلا جاتی ہے
لائے تو رد بلا کا تعویذ

مر کے بھی دل کی تڑپ اتنی ہے
شق ہوا میری لحد کا تعویذ

ہر طرح ہوتی ہے مایوسی جب
لوگ کرتے ہیں دعا یا تعویذ

آرزو خاک میں دشمن کی ملے
اس لیے دفن کیا تھا تعویذ

ہاتھ سے اپنے جو لکھا اس نے
ہم نے اس خط کو بنایا تعویذ

جس سے آیا ہوا دل رک جائے
کوئی ایسا بھی ہے لٹکا تعویذ

دل پسیجا نہ کسی دن ان کا
روز لکھ لکھ کے جلایا تعویذ

کام لو جذب محبت سے حفیظؔ
نقش کیا چیز ہے کیسا تعویذ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse