Jump to content

لکھنؤ کا عہد شاہی/دربار شاہان اودھ

From Wikisource

دربار شاہان اودھ


ہندوستان کی سرزمین سواد اعظم کے نام سے مشہور ہے۔ اور ملکوں پر اس کو اس لیے ترجیح ہے کہ حضرت آدم بہشت چھوڑ کر ہندوستان کی سرزمین پر آئے، جہاں سردی، گرمی، برسات ہر فصل اعتدال سے ہوتی ہے۔ ہندوستان میں بھی اودھ ہی کو یہ فخر حاصل ہے کہ اس کو گلشن ہند کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔ اِس مضمون میں ہم دربار اودھ کی جھلک دکھانا چاہتے ہیں کیونکہ آج کل جب کہ ہر طرف سلور جوبلی کی دھوم دھام مچی ہوئی ہے اور تمام اہل ہند اپنے شاہنشاہ معظم(١) کی تخت نشینی کی پچیسویں سالگرہ اور جشن آرائی پر خوشی سے پھولے نہیں سماتے ہیں؛ شاہان اودھ کے دربار کی کیفیت کا بیان دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔


نصیر الدین غازی حیدر


شاہی محل کی عالیشان عمارت کے وسط میں صدر مقام پر ایک نفیس بارہ دری بنی ہوئی اور شیشہ آلات سے سجی ہوئی ہے۔ نفیس نفیس جھاڑ، نازک نازک دیوار گیریاں، قلمی تصویریں، خوشخط قطعے لگے ہیں۔ کمروں میں تمام کا فرش بچھا ہے۔ سنہری، روپہلی چلمنیں، زربفت کے پردے پڑے ہیں۔ بارہ دری کے سامنے پُرفضا چمن لگا ہے۔ سنگ مرمر کی نہریں جن میں فوارے چھوٹ رہے ہیں۔ شہ نشین میں صدر مقام پر کارچوبی گاؤ تکیے لگائے ہوئے حضرت شاہ نصیر الدین حیدر بادشاہ غازی جلوہ افروز ہیں۔ اُن کے پہلو میں بڑے تُزک و احتشام سے نواب ملکہ زمانیہ بیٹھی ہیں۔ گردا گرد خواصیں ماہتاب کے ہالے کی طرح، اردلی کی خواص چنور اور مورچھل جھل رہی ہے۔ ڈومنیاں مع سازندہ عورتوں کے بھاؤ بتا بتاکر سریلے سُروں میں گارہی ہیں۔ کوئی چیخ کر بات نہیں کرسکتا۔ نظر سے نظر ملانے کا حکم نہیں ہے۔ کسی کو کھنکارنے کا حکم نہیں ہے۔ جو شخص جو کچھ کہتا ہے، آتو جی سر جھکاکر با ادب عرض کرتی ہیں۔ اتنے میں داروغہ ڈیوڑھی نے خبر بھجوائی “کوئی بی حسینی خانم ہیں، جن کو آتو جی نے محل کی ملازمت کے لیے طلب فرمایا تھا، وہ ڈولی میں آئی ہیں۔ کیا حکم ہوتا ہے؟ ڈولی اتروائی جائے یا نہیں؟” آتو جی نے کہا “ہاں ہاں مجھ سے بیگم صاحبہ نے فرمایا تھا ایک چٹھی نویسنی کے لیے؛ آنے دو”۔

باہر سے ایک خواجہ سرا ہمراہ آیا۔ بی حسینی خانم کی سِٹّی بھول گئی، یا الٰہی کس طرف جاؤں۔ چاروں طرف اچھی پوشاک والی بیبیاں بڑے ٹھسّے سے بیٹھی ہیں۔ پہلے تو انّا کو دیکھ کر سمجھیں شاید یہی بادشاہ بیگم ہیں۔ جھک کر سلام کیا، خواجہ سرا نے کہا آگے چلو۔ اب یہ قدم قدم پر فرشی سلام کرتی ہیں۔ اتنے میں دور سے آتو جی آتے ہوئے دکھائی دیں، اِن کی جان میں جان آئی۔ انہوں نے کہا چلو ہم تو تمہارا راستہ دیکھ رہے تھے۔ بیگم صاحبہ سے تمہارا ذکر کرچکے ہیں۔ غرض سارے محل کے صدقے ہوتی ہوئیں بارہ دری کے زینہ سے تہہ خانہ کے اندر اتریں۔ محلدار ساتھ ساتھ ہوئی۔ محلدار نے کہا سامنے بادشاہ اور بیگم بیٹھے ہیں، ذرا ادب قاعدے سے، پھر آگے بڑھ کر عرض کیا: سرکار عالیہ کے فرمان سے بی حسینی خانم حاضر ہیں، نگہ رو برو! حسینی خانم نے نہایت ادب قاعدے سے سلام کیا اور بادشاہ کی خدمت میں اپنا لکھا ہوا خوشخط قطعہ نذر میں پیش کیا اور بیگم صاحبہ کو پانچ اشرفیاں نذر میں دکھائیں۔ بیگم صاحبہ کے اشارے سے قطعہ اور اشرفیاں آتوجی نے قبول کرلیں۔ بیگم صاحبہ نے بیٹھنے کا حکم دیا اور سرفرازی کا خلعت منگوایا۔ لونڈیاں دوڑتی ہوئی بھاری خلعت کی کشتیاں لے کر حاضر ہوئیں۔ ایک دوشالہ بھاری، ایک رومال سنہری جالدار، ایک تھان کمخواب، ایک تھان سرخ اطلس کا، ڈھاکے کی جامدانی، بنارسی دو ڈوپٹے، مشروع کے دو تھان اور سونے کے کڑے مرحمت ہوئے۔ بادشاہ نے ایک ہزار روپیہ کا توڑا منگوا کر انعام دیا اور پچاس روپیہ ماہوار پر چٹھی نویسوں میں اسم ہوگیا۔

دو گھنٹے یہاں دل بہلا کر بادشاہ سلامت نے بوچہ طلب فرمایا۔ کہاریاں سواری لے کر حاضر ہوئیں، حضور سوار ہوئے۔ ڈیوڑھی کے باہر کہاروں نے کندھا دیا، حضور دربار میں تشریف لائے۔ دربار کی کوٹھی رمنہ میں “فرح بخش” کے نام سے مشہور تھی، تخت شاہی یہیں رہتا تھا۔ جب سواری مع ماہی مراتب اور جلوس کے کوٹھی تک پہنچی، سارے عملے نے سر وقد ہوکر سلامی دی۔ معتمد الدولہ آغا میر وزیر، ظفر الدولہ کپتان فتح علی خاں بہادر، اقبال الدولہ، مکرّم الدولہ، مَجد الدولہ، میر محمد سر رشتہ دارِ عدالت، نواب روشن الدولہ، افتخار الدولہ، مہاراجا میوہ رام، راجا امرت لال عرض بیگی، مرزا کیوان جاہ نے باری باری سے مُجرا کیا اور اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ گئے۔ بادشاہ نے تخت شاہی پر جلوس فرمایا۔ خُدّام داہنے بائیں چنور لیے کھڑے ہیں۔ پشت پر ایک خواص چھڑ لگائے ہوئے ہے۔ درباری لوگ بہت ادب قاعدے سے بیٹھے ہوئے، نگاہیں نیچی کیے ہوئے، خاموشی کا عالم۔

پہلے معتمد الدولہ آغا میر نے ضروری کاغذات پیش کیے اور اپنی جگہ پر بیٹھ گئے۔ حضور نے بعد ملاحظہ دریافت طلب باتیں پوچھ کر دستخط فرمائے۔ پھر مقدمات عدالت پیش ہوئے۔ روبکاری سماعت فرماکر احکام جاری کیے۔ اتنے میں مِردھے نے عرض کیا “شاہ عالم عالمیان نگاہ روبرو نواب عاشق علی حاضر ہو”۔ آپ نے اشارہ فرمایا۔ داروغہ ڈیوڑھی نے کہا آنے دو، بادشاہ نے طلب فرمایا ہے۔ چوبدار نے آواز دی: نواب عاشق علی حاضر ہے، نگاہ روبرو۔ پہلی ڈیوڑھی کے چوبدار نے کہا کہ سب چوبدار یکے بعد دیگرے آواز دینے لگے۔ اس کے بعد رستم علی مِردھے نے بھی آواز دی۔ نواب عاشق علی پھاٹک سے دوطرفہ سلام کرتے ہوئے جھکے جھکے چلے آتے ہیں، دربار کے رعب سے کانپ رہے ہیں۔ راجا امرت لال عرض بیگی نے اِن کو سامنے لے جاکر عرض کیا: ملاحظہ ہو، نواب عاشق علی حاضر ہے۔ نواب نے زمین دوز ہوکر مجرا کیا۔ دس اشرفیاں نذر میں پیش کیں، حضور نے اشارے سے قبول کیں۔ ٢٤ جنوری ١٨٢٨؁ء کو پیش ہوئے، نذر قبول ہوئی، اُسی روز خلعتِ سرفرازی ہوا، پانچ سو روپیہ ماہوار تنخواہ مقرر ہوئی اور عہدۂ سفارت مرحمت ہوا۔ اُسی روز کلکتہ جانے کا حکم ملا۔ تین لاکھ روپیہ نقد سرکار سے واسطے ضروریات کے مرحمت ہوا۔ اِسی طرح نجم الدولہ جعفر علی خاں ابن مظفر علی خاں گوالیار سے آئے، بادشاہ نے بہت مرحمت فرمائی اور عہدۂ توپ خانہ سلمانی عنایت ہوا۔ پانچ سو روپیہ مہینہ مقرر ہوا۔


سعادت علی خاں


نواب سعادت علی خاں قبل طلوع آفتاب کے دربار سواری کا فرماتے تھے، عرب اور جنگل کے تال میل سے خانہ زاد گھوڑے تھے۔ محل سے بوچہ پر سوار ہوکر برآمد ہوئے اور گھوڑے پر سوار ہوئے۔ اس وقت آپ لباس انگریزی، ولایتی ڈاب زیر کمر کیے ہوئے اور سیاہ مغلی ٹوپے دیے ہوتے تھے۔ پہلے سلام مرشد زادوں کا ہوتا تھا، اس کے بعد امرائے خاص کا۔ دو گھڑی میں ہوا خوری سے فراغت کرکے ہاتھی پر مع جلوس سوار ہوتے تھے۔ سواری مع جلوس مع ڈنکا و نشان ہوتی تھی۔ امرائے دولت ہاتھیوں پر سوار ہمراہ ہوتے تھے۔ خاص بردار چنور لیے ہوئے، چوبدار سواری کے داہنے بائیں ساتھ ہوتے تھے۔ مرزا کریم بیگ، محمد غلامی سوار انگریزی پوشاک میں آگے آگے ہوتے تھے۔ بیس سوار اور بیس پیدل روزانہ اہتمام سواری کرتے تھے اور کل اہتمام نواب انتظام الدولہ مظفر علی خاں کے سپرد تھا۔ نواب اشرف الدولہ رمضان علی خاں، مرزا اشرف علی بھی ہمراہ ہوتے تھے۔ روزانہ پہرہ چوکی پر بائیس سوار آدمی مختلف فرقے کے ملازم تھے، ان میں دو سوار بھی تھے۔

دربار سواری کی بھی شان تھی۔ امرا درِ دولت سے رخصت ہوجاتے تھے۔ نو بجے صبح کو چائے پانی ہوتا تھا۔ کرسی نشین امرا، مقربان خاص، صمصام الدولہ مرزا ہجّو، مرزا محمد تقی خاں ہوس پہلو میں، مکلوڈ صاحب، ڈاکٹر لا صاحب خاص کرسی کی پشت پر بیٹھتے تھے۔ میر انشاء اللہ خاں، میر ابوالقاسم خاں، سراج الدولہ، معززین، خواجہ سرا باریابِ سلام ہوتے تھے۔

سلام کا قاعدہ یہ تھا کہ مِردھا پہلے عرض خدمت کرتا تھا۔ پھر عرض بیگی اپنے سامنے پیش کرکے ادب قاعدے سے سلام کراتا تھا۔ اس میں بہت دیر موقع محل دیکھنے میں ہوجاتی تھی۔ ایک دربار وقت خاصے کے ہوتا تھا، جس میں مقربان خاص، اردلی و نواب جلال الدولہ، مہدی علی خاں، رُکن الدولہ، نواب محمد حسن خاں شریکِ خاصہ ہوتے تھے۔ اس کے بعد حضور محل میں تشریف لے جاتے تھے۔

بارہ بجے برآمد ہوتے، کچہری فرماتے تھے۔ کاغذات ملاحظہ ہوتے تھے۔ نواب نصیر الدولہ تمام رپورٹیں ایک بند لفافے میں رکھ کر پیش کرتے تھے۔ نواب شمس الدولہ بھی کاغذات بند لفافے میں پیش کرتے تھے اور آپ علاحدہ کمرے میں حاضر رہتے تھے۔ اِسی طرح نواب منتظم الدولہ مہدی علی خاں، وزیر راجا دیا کرشن رائے رتن چند صاحب، اخبار رائے رام اخبار نویس، خفیہ منشی رونق علی، منشی دانش علی اپنے اپنے لفافے میز پر رکھ کر علاحدہ کمرے میں بیٹھتے تھے۔ استفسار کے لیے بلائے جاتے تھے۔ جناب عالی لفافے ملاحظہ فرماکر ضروری کاغذات پر دستخط فرماتے تھے اور جو ناقابل داخل دفتر ہوتے تھے وہ طشتِ آب میں ڈال دیے جاتے تھے، اِن کا ایک ایک حرف دھو ڈالا جاتا تھا۔ جس کاغذ پر مہر خاص کرنا ہوتی تھی، ظفر الدولہ سامنے حضور کے مہر کرتے تھے۔ جو کاغذ باقی رہ جاتے تھے، رات کو ملاحظہ فرماتے تھے۔ پرچہ اخبار ہر وقت گزر سکتا تھا۔ بعد دستخط تمام کاغذ ہر دفتر میں بھجوادیے جاتے تھے۔ اُسی روز تمام احکام جاری ہوتے تھے۔

وقت شام دو اسپہ گاڑی پر سوار ہوکر ہوا خوری کو نکلتے تھے۔ جلوس سواری میں راجا بختاور سنگھ کا رسالہ تُرک سواران ہمراہ ہوتا تھا۔ کبھی تامدان پر تشریف فرما ہوتے تھے۔ اکثر گنج میں جاکر نرخ غلہ کا دریافت کرتے تھے کہ رعایا کو گرانی غلہ سے تکلیف نہ ہو۔ بقّال اس خوف سے اناج مہنگا نہیں کرسکتے تھے۔ اُس وقت دو پیسے سیر آٹا بکتا تھا۔ غازی الدین حیدر


نواب غازی الدین حیدر ایک بسنتی دربار بسنت کے موسم میں کرتے تھے۔ یہ دربار موتی محل اور شاہ منزل خاص میں ہوتا تھا، جس میں ہر فرقے کے لوگ جمع ہوتے تھے۔ آپ کے دربار کا طریقہ یہ تھا کہ صبح نو بجے درِ دولت سے کوٹھی فرح بخش میں جلوس فرماتے تھے۔ کنارہ نہر بینڈ باجے سے سلامی ہوتی تھی۔ جب تخت شاہی پر متمکن ہوتے، دو چنور بردار مورچھل ہلاتے تھے۔ پہلے صاحب زادے سلام کو آتے تھے، پھر بھائی نواب نصیر الدولہ کاظم علی خاں، جعفر علی خاں، حسین علی خاں، مہدی علی خاں، کلب علی خاں نہایت ادب سے اپنی اپنی کرسی کے پاس کھڑے رہتے تھے۔ جب بادشاہ باشارۂ ابرو سلام قبول کرتے تو اپنی اپنی جگہ بیٹھ جاتے۔ بائیں طرف ڈاکٹر مکلوڈ صاحب بیٹھتے جن سے فارسی میں بات چیت ہوتی۔ کمرے کے ایک گوشے میں ایک انگریز مشک بجاتا تھا جو بہت سریلی ہوتی تھی۔ رجب علی، افضل علی خیال گاتے تھے۔ سہرو بائی دکن کی رہنے والی نے غضب کی آواز پائی تھی۔ جس وقت صبح کے وقت گاتی تھی ؏

اے نسیم سحر! آرام گہہِ یار کُجاست

سب کو وجد ہوجاتا تھا اور جھومنے لگتے تھے؛ خصوصاً مکلوڈ صاحب کی کیفیت کچھ نہ پوچھیے۔

جناب عالی کے سامنے ایک قد آدم آئینہ وسط میز پر رکھا جاتا تھا۔ آئینہ کے سامنے ایک بلوریں جھاڑ تھا، جس کے ہر پیالے میں دھنیا، الائچی، مسالہ وغیرہ خوشنمائی سے چُنا جاتا تھا۔ میز پر انگریزی اور ہندوستانی عمدہ عمدہ کھانے چُنے جاتے تھے اور گلدستے لگائے جاتے تھے۔ اہل دربار وہاں بیٹھ کر کھاتے پیتے اور آپس میں مذاق کرتے تھے۔ تمام مجرائی لال پردے کے باہر بیٹھے رہتے تھے، جب حکم ہوتا تھا سلام کو حاضر ہوتے تھے۔ نجم الدولہ رائے امرت لال، شیخ فتح علی سلام کر آتے تھے۔ اس کے بعد یہ دربار برخاست ہوتا اور جناب محل سرا میں تشریف لے جاتے تھے۔


سلطان الزماں محمدعلی شاہ


ابوالفتح معین الدین سلطان الزماں محمد علی شاہ جن کا مزار امام باڑہ حسین آباد مبارک میں ہے، بوجہ کبر سنی کے ان کے ہاتھ پاؤں رہ گئے تھے۔ دربار کی صورت یہ تھی کہ آٹھ بجے برآمد ہوئے، سونے کی پلنگڑی پر اجلاس فرمایا۔ شہزادے، امرا، اہل دربار باریابِ سلام ہوئے۔ نو بجے دربار برخاست ہوا۔ کچہری کے کاغذات عملے نے پیش کیے۔ دوپہر تک دستخط ہوا کیے۔ دوپہر کو خاصہ چُنا گیا، (خود معذور تھے) رفیق الدولہ نے خاصہ کھلایا۔ ایک گھنٹہ قیلولہ فرمایا پھر خفیہ رپورٹیں سماعت کیں۔ قریبِ شام تامدان میں سوار ہوکر نواب ملکہ جہاں کے محل میں تشریف لے گئے۔


امجد علی شاہ


ثریا جاہ حضرت سلطان زماں امجد علی شاہ کا طریق دربار یہ تھا کہ صبح کو بوچہ خاص پر محل سے برآمد ہوئے۔ مع مختصر جلوس کے ہوا خوری کو تشریف لے گئے۔ آٹھ بجے دربار میں آئے۔ سب امرائے دولت نے حاضر ہوکر سلام کیا، اپنے اپنے قاعدے سے بیٹھ گئے۔ مقربین خاص نے اپنی اپنی تقریر خوش سے محظوظ فرمایا۔ انعام واکرام ہوئے، درباری لوگ رخصت ہوئے۔ عدالت کے کاغذات ملکی ومالی پیش ہوئے۔ بارہ بجے کے بعد محل سرا تشریف لے جاتے تھے۔ سہ پہر کو مدیر الدولہ محل سرائے میں حاضر ہوکر کاغذات پیش کرتے تھے۔ شام کو پھر سوار ہوکر شہر کی حالت معائنہ فرماتے تھے۔ کبھی مدرسہ سلطانیہ میں تشریف لے جاتے تھے، جسے خود قائم کیا تھا۔ اِس مدرسہ میں کئی ہزار لڑکا پڑھتا تھا۔ فی کَس پانچ روپیہ ماہوار سرکار سے ملتا تھا۔ ایک ایک مدرس بیس بیس لڑکوں کو تعلیم دیتا تھا۔ آٹھ بجے سے چار بجے تک مدرسہ کھلا رہتا تھا۔ واجد علی شاہ


حضرت سلطان عالم محمد واجد علی شاہ نے کوٹھی فرح بخش قدیم بیت السلطنتِ شاہی کو چھوڑ دیا اور اپنا دربار شہنشاہ منزل میں قائم کیا۔ کوٹھی فرح بخش میں محض اتوار کو دربار ہوتا تھا۔ تمام شہزادے، امرائے دولت، رفقا حاضر رہتے تھے۔ بادشاہ تشریف لاکر دس بجے تک قیام فرماتے تھے۔ عدالت کا دربار روزانہ ہوتا تھا۔ ۹ بجے نواب امین الدولہ، مہاراجا مدیر الدولہ اور تدبیر الدولہ، اہل دفتر خاص دولت خانہ قدیم (در دولت) پر تشریف لاتے تھے، دوپہر تک ملاحظہ کاغذات میں مصروف رہتے تھے۔ دوپہر کے بعد تخلیہ ہوجاتا۔ جب بادشاہ کی سواری شہر میں نکلتی تھی، چاندی کے مکّلف صندوقچے سواری خاص کے داہنے بائیں دو ترک سوار لیے ہوتے تھے۔ اِن صندوقچوں کا نام “مشغلہ نوشیروانی” تھا۔ عام لوگوں کو حکم تھا کہ جس کسی کو کوئی خاص استغاثہ کرنا ہو (جس کی سماعت سرکاری عملے نے خلاف انصاف کی ہو) اپنی درخواست اس صندوقچہ میں ڈال دے۔ حضور خود ملاحظہ کرکے بلا رو و رعایت احکام صادر فرماتے تھے۔ اِس سے عملے کو مجبور ہوکر رعایا کے حقوق کی حفاظت کرنا پڑتی تھی کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ بادشاہ تک استغاثہ جائے۔


Wikipedia logo
Wikipedia logo
آزاد دائرة المعارف ویکیپیڈیا پر لکھنؤ کا عہد شاہی/دربار شاہان اودھ کے متعلق مضمون ہے۔