لکھا خط اسے لے قلم اور کاغذ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
لکھا خط اسے لے قلم اور کاغذ
by جوشش عظیم آبادی

لکھا خط اسے لے قلم اور کاغذ
جلے عشق سوزاں سے ہم اور کاغذ

نہ رکھ دیدۂ تر پہ مکتوب اس کا
مخالف ہیں آپس میں نم اور کاغذ

خدا سے بھی ڈر لکھ نہ احوال دل کا
دوانے یہ سوز رقم اور کاغذ

لکھا صفحۂ دل پہ مکتوب تجھ کو
نہ تھا تیرے لائق صنم اور کاغذ

مرے دل کو اے چشم نامے کا اس کے
خوش آتا ہے حسن رقم اور کاغذ

ذرا دیر تیرے جو تھم جائیں آنسو
رہے ہاتھ میں کوئی دم اور کاغذ

جو کچھ صفحۂ دل میں اپنے ہے ؔجوشش
رکھے ہے یہ خوبی تو کم اور کاغذ


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.