لڑ ہی جائے کسی نگار سے آنکھ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
لڑ ہی جائے کسی نگار سے آنکھ
by بشیر الدین احمد دہلوی

لڑ ہی جائے کسی نگار سے آنکھ
کاش ٹھہرے کہیں قرار سے آنکھ

کچھ محبت ہے کچھ مروت ہے
آج پڑتی ہے مجھ پہ پیار سے آنکھ

چلتے رہتے ہیں خوب تیر نگاہ
باز آتی نہیں شکار سے آنکھ

ٹکٹکی سے کہاں ملی فرصت
آ گئی عاجز انتظار سے آنکھ

کیا پڑی ہے بلا کو اس کی عرض
کیوں ملائے امیدوار سے آنکھ

کوئی تدبیر بن نہیں پڑتی
کیا ملے چشم شرمسار سے آنکھ

نیچی نظروں سے دیکھ لیتے ہیں
کیا ملائیں وہ بے قرار سے آنکھ

دید بازی کا جس کو لپکا ہے
کب ٹھہرتی ہے اضطرار سے آنکھ

نظروں نظروں میں باتیں ہوتی ہیں
خوب ملتی ہے رازدار سے آنکھ

کیوں یہ ملتی ہے بے وفاؤں سے
کاش لڑتی وفا شعار سے آنکھ

کبھی در پر کبھی ہے رستے میں
نہیں تھکتی ہے انتظار سے آنکھ

مرنے کے بعد بھی تھی شرم ان کو
کہ چرائی مرے مزار سے آنکھ

صبح محشر اٹھا نہیں جاتا
اب بھی کھلتی نہیں خمار سے آنکھ

دل غنی ہے مرا تو کیا پروا
کب ملاتا ہوں مال دار سے آنکھ

کیوں جھکاؤں نظر بشیرؔ اپنی
کبھی جھپکی نہیں ہزار سے آنکھ

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse