لڑکپن میں یہ ضد ہے جانی تمہاری

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
لڑکپن میں یہ ضد ہے جانی تمہاری
by نسیم دہلوی

لڑکپن میں یہ ضد ہے جانی تمہاری
ابھی دیکھنی ہے جوانی تمہاری

کہا میں نے ٹھہرو تو بولے یہ ہنس کر
کبھی پھر سنیں گے کہانی تمہاری

نثار ان کے جائیں جو سچ جانے اس کو
فسانہ ہمارا زبانی تمہاری

بڑی خدمتیں کیں اب آزاد کر دو
بہت دیکھ لی مہربانی تمہاری

چھپاؤں نہ کس طرح سے جاں بدن میں
مری جان یہ ہے نشانی تمہاری

بہت صاف ہیں گالیاں واہ وا ہے
سنی بارہا خوش بیانی تمہاری

مقرر بلا آنے والی ہے کوئی
نہیں بے سبب مہربانی تمہاری

نسیمؔ اب تو گھبرا گیا دل ہمارا
سنے کون پہروں کہانی تمہاری

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse