لپٹ لپٹ کے میں اس گل کے ساتھ سوتا تھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
لپٹ لپٹ کے میں اس گل کے ساتھ سوتا تھا
by نظیر اکبر آبادی

لپٹ لپٹ کے میں اس گل کے ساتھ سوتا تھا
رقیب صبح کو منہ آنسوؤں سے دھوتا تھا

تمام رات تھی اور کہنیاں و لاتیں تھیں
نہ سونے دیتا تھا مجھ کو نہ آپ سوتا تھا

جو بات ہجر کی آتی تو اپنے دامن سے
وہ آنسو پونچھتا جاتا تھا اور میں روتا تھا

مسکتی چولی تو لوگوں سے چھپ کے سینے کو
وہ تاگے بٹتا تھا اور میں سوئی پروتا تھا

غرض دکھانے کو آن و ادا کے سو عالم
وہ مجھ سے پاؤں دھلاتا تھا اور میں دھوتا تھا

لٹا کے سینے پہ چنچل کو پیار سے ہر دم
میں گدگداتا تھا ہنس ہنس وہ ضعف کھوتا تھا

وہ مجھ پہ پھینکتا پانی کی کلیاں بھر بھر
میں اس کے چھینٹوں سے تو پیرہن بھگوتا تھا

نہانے جاتے تو پھر آہ کرتی چھینٹوں سے
وہ غوطے دیتا تھا اور میں اسے ڈبوتا تھا

ہوا نہ مجھ کو خمار آخر ان شرابوں کا
نظیرؔ آہ اسی روز کو میں روتا تھا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse