لو نہ ہنس ہنس کے تم اغیار سے گل دستوں سے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
لو نہ ہنس ہنس کے تم اغیار سے گل دستوں سے
by نظیر اکبر آبادی

لو نہ ہنس ہنس کے تم اغیار سے گل دستوں سے
اتنی ضد بھی نہ رکھو اپنے جگر خستوں سے

فندقیں بزم میں دیکھ اس کے سر انگشتوں سے
رشتۂ ربط نے لی راہ کف دستوں سے

روبرو ہووے جو چشمان بتاں سے اے دل
ڈرتے رہنا ہی مناسب ہے سیہ مستوں سے

دست صیاد سے چھوٹے تو اچھل پے در پے
ورنہ کیا فائدہ اے آہوے دل جستوں سے

پیش جاتی نہیں ہرگز کوئی تدبیر نظیرؔ
کام جب آن کے پڑتا ہے زبردستوں سے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse