لوٹا ہے مجھے اس کی ہر ادا نے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
لوٹا ہے مجھے اس کی ہر ادا نے
by وحشت کلکتوی

لوٹا ہے مجھے اس کی ہر ادا نے
انداز نے ناز نے حیا نے

دونوں نے کیا ہے مجھ کو رسوا
کچھ درد نے اور کچھ دوا نے

بے جا ہے تری جفا کا شکوہ
مارا مجھ کو مری وفا نے

پوشیدہ نہیں تمہاری چالیں
کچھ مجھ سے کہا ہے نقش پا نے

کیوں جور کشان آسماں سے
منہ پھیر لیا تری جفا نے

دل کو مایوس کر دیا ہے
بیگانہ مزاج آشنا نے

دونوں نے بڑھائی رونق حسن
شوخی نے کبھی کبھی حیا نے

خوش پاتے ہیں مجھ کو دوست وحشتؔ
دل کا احوال کون جانے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse