لندن کی ایک شام

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
لندن کی ایک شام
by محمد دین تاثیر

یہ رہ گزر
یہ زن و مرد کا ہجوم یہ شام
فراز کوہ سے جس طرح ندیاں سر پر
لیے ہوئے شفق آلود برف کے پیکر
سفید جھیل کی آغوش میں سمٹ جائیں
یہ تند گام سبک سیر کارواں حیات
نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم
کدھر سے آئے کدھر جا رہے ہیں کیا معلوم

سنہری شام
یہ 'ای روس' جھلملاتا ہوا
بندھا ہوا ہے نشانہ کھنچی ہوئی ہے کماں
کسے یہ تیر لگے گا
کہاں؟ یہاں کہ وہاں!
نظر نظر سے ملی دل کا کام ختم ہوا

سنہری شام
یہ 'ای روس' جگمگاتا ہے
کوئی ہنسے کوئی روئے یہ مسکراتا ہے
اسی مقام پہ پھر لوٹ کر میں آیا ہوں
یہ رہ گزر یہ زن و مرد کا ہجوم یہ شام
یہ تند سیر سبک گام کاروان حیات
یہ جوش رنگ یہ طغیان حسن کے جلوے
یہیں کے نور سے روشن مری نگاہیں ہیں
مرے شباب کی روندی ہوئی یہ راہیں ہیں
وہی مقام ہے لیکن وہی مقام نہیں
یہ شام تو ہے مگر وہ سنہری شام نہیں
وہ رعب داب نہیں ہے
وہ دھوم دھام نہیں
وہ میں نہیں ہوں
کہ ان کا میں اب غلام نہیں
صنم کدوں میں اجالے نہیں رہے کہ جو تھے
کہ اب وہ دیکھنے والے نہیں رہے کہ جو تھے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse