لطف ہو حشر میں کچھ بات بنائے نہ بنے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
لطف ہو حشر میں کچھ بات بنائے نہ بنے
by برجموہن دتاتریہ کیفی

لطف ہو حشر میں کچھ بات بنائے نہ بنے
آنکھ بھی شوخ ستمگر سے چرائے نہ بنے

مجھ کو اٹھوا تو دیا اس نے بھری محفل سے
کون تھا یہ کوئی پوچھے تو بتائے نہ بنے

بات ساری یہ ہے وہ ضد پہ اڑے بیٹھے ہیں
یاد کی بھول ہو تو لاکھ جتائے نہ بنے

تم سے اب کیا کہیں وہ چیز ہے داغ غم عشق
کہ چھپائے نہ چھپے اور دکھائے نہ بنے

سیدھی باتوں پہ ہے مطلوب سند اور ثبوت
ہیں وہ کج بحث زباں ان سے ملائے نہ بنے

فتح کا راز ہے ثابت قدمی اور ہمت
کام بھی ہے کوئی ایسا کہ بنائے نہ بنے

بات وہ کہہ گئے آئے بھی تو کس طرح یقیں
اور سحر اس میں کچھ ایسا ہے بھلائے نہ بنے

بے کسی کی ہے مصیبت میں شکایت بے سود
کب پڑا وقت کہ اپنے بھی پرائے نہ بنے

غم جو پیارے سے ملے کیوں نہ ہو وہ بھی پیارا
بھولنا بھی اسے چاہیں تو بھلائے نہ بنے

ہے نظر میں وہ سماں نقش ہے جس کا دل پر
درد وہ نام ہے لب تک جسے لائے نہ بنے

بے خودی کا ہے جہاں بے اثر ناز و نیاز
سرکشی بھی نہ چلے سر بھی جھکائے نہ بنے

آہ سرد اور بھی بھڑکاتی ہے شعلہ دل میں
یہ دیا وہ ہے جو پھونکوں سے بجھائے نہ بنے

سرد آزاد ہے دل رشک و نمائش ہے عبث
خار کھائے نہ بنے گل بھی کھلائے نہ بنے

عین یک رنگی ہے نیرنگ تماشا ہر چند
یہ وہ عریانی کا پردہ ہے اٹھائے نہ بنے

بے خودی میں بھی تو کیفیؔ کی یہ خودداری ہے
حال دل پوچھ بھی لیں وہ تو سنائے نہ بنے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse