لطف گناہ میں ملا اور نہ مزہ ثواب میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
لطف گناہ میں ملا اور نہ مزہ ثواب میں
by اثر صہبائی

لطف گناہ میں ملا اور نہ مزہ ثواب میں
عمر تمام کٹ گئی کاوش احتساب میں

تیرے شباب نے کیا مجھ کو جنوں سے آشنا
میرے جنوں نے بھر دیے رنگ تری شباب میں

آہ یہ دل کہ جاں گداز جوشش اضطراب ہے
ہائے وہ دور جب کبھی لطف تھا اضطراب میں

قلب تڑپ تڑپ اٹھا روح لرز لرز گئی
بجلیاں تھیں بھری ہوئی زمزمۂ رباب میں

چرخ بھی مے پرست ہے بزم زمیں بھی مست ہے
غرق بلند و پست ہے جلوۂ ماہتاب میں

میرے لیے عجیب ہیں تیری یہ مسکراہٹیں
جاگ رہا ہوں یا تجھے دیکھ رہا ہوں خواب میں

میرے سکوت میں نہاں ہے مرے دل کی داستاں
جھک گئی چشم فتنہ زا ڈوب گئی حجاب میں

لذت جام جم کبھی تلخی زہر غم کبھی
عشرت زیست ہے اثرؔ گردش انقلاب میں

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse