لطف کیا ہے بے خودی کا جب مزا جاتا رہا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
لطف کیا ہے بے خودی کا جب مزا جاتا رہا
by شاد عظیم آبادی

لطف کیا ہے بے خودی کا جب مزا جاتا رہا
یوں نہ مانوں میں مگر ساغر تو سمجھاتا رہا

طاق سے مینا اتارا پاؤں میں لغزش ہوئی
کی نہ ساقی سے برابر آنکھ شرماتا رہا

مجھ سا ہو مضبوط دل تب مے کشی کا نام لے
محتسب دیکھا کیا مجبور جھلاتا رہا

کیا کروں اور کس طرح اس بے قراری کا علاج
یار کے کوچے میں بھی تو دل کا بہلاتا رہا

نوجواں قاتل کو اچھی دل لگی ہاتھ آ گئی
جب تلک کچھ دم رہا بسمل کو ٹھکراتا رہا

شادؔ وقت نزع تھا خاموش لیکن دیر تک
نام رہ رہ کر کسی کا زیر لب آتا رہا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse