لطف و کرم کے پتلے ہو اب قہر و ستم کا نام نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
لطف و کرم کے پتلے ہو اب قہر و ستم کا نام نہیں
by فانی بدایونی

لطف و کرم کے پتلے ہو اب قہر و ستم کا نام نہیں
دل پہ خدا کی مار کہ پھر بھی چین نہیں آرام نہیں

جتنے منہ ہیں اتنی باتیں دل کا پتہ کیا خاک چلے
جس نے دل کی چوری کی ہے ایک اسی کا نام نہیں

جلوہ و دل میں فرق نہیں جلوے کو ہی اب دل کہتے ہیں
یعنی عشق کی ہستی کا آغاز تو ہے انجام نہیں

رک کے جو سانسیں آئیں گئیں مانا کہ وہ آہیں تھیں لیکن
آپ نے تیور کیوں بدلے آہوں میں کسی کا نام نہیں

عشق کے آزاری بھی کہیں مر جانے سے جی جاتے ہیں
لے یہ تسلی رہنے دے اے موت یہ تیرا کام نہیں

کب سے پڑی ہیں دل میں تیرے ذکر کی ساری راہیں بند
برسوں گزرے اس بستی میں رسم سلام و پیام نہیں

حد تھی یہ بیتابی دل کی جانیے اب کیا ہونا ہے
صبر کی حد بھی ہونے آئی صبح نہیں یا شام نہیں

دل پہ اپنا بس نہیں چلتا ان کی شکایت کیا کیجے
آپ ہم اپنے دشمن ٹھہرے دوست پہ کچھ الزام نہیں

دل سے کسی کی آنکھوں تک کچھ راز کی باتیں پہنچی ہیں
آنکھ سے دل تک آیا ہو ایسا تو کوئی پیغام نہیں

نزع میں فانیؔ تو نے یہ کس کا چپکے چپکے نام لیا
کیوں او کافر تیری زباں پر اب بھی خدا کا نام نہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse