لطف وہ عشق میں پائے ہیں کہ جی جانتا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
لطف وہ عشق میں پائے ہیں کہ جی جانتا ہے
by داغ دہلوی

لطف وہ عشق میں پائے ہیں کہ جی جانتا ہے
رنج بھی ایسے اٹھائے ہیں کہ جی جانتا ہے

جو زمانے کے ستم ہیں وہ زمانہ جانے
تو نے دل اتنے ستائے ہیں کہ جی جانتا ہے

تم نہیں جانتے اب تک یہ تمہارے انداز
وہ مرے دل میں سمائے ہیں کہ جی جانتا ہے

انہیں قدموں نے تمہارے انہیں قدموں کی قسم
خاک میں اتنے ملائے ہیں کہ جی جانتا ہے

دوستی میں تری در پردہ ہمارے دشمن
اس قدر اپنے پرائے ہیں کہ جی جانتا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse