لطف میں واں ڈھنگ ہے بیداد کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
لطف میں واں ڈھنگ ہے بیداد کا
by قربان علی سالک بیگ

لطف میں واں ڈھنگ ہے بیداد کا
کام دے اے خامشی فریاد کا

کیوں کہ لے تصویر اس کی دیکھیے
ہاتھ قابو میں نہیں بہزاد کا

عمر بھر رکھتا ہے پابند کمیں
صید خود اک دام ہے صیاد کا

دعویٔ باطل کی پرسش رہ گئی
کون پرساں حسرت شداد کا

دور تک اپنی نگاہیں ہیں رسا
پردہ حائل گر نہ ہو ایجاد کا

کون یاں قید تعلق میں نہیں
پا بہ گل ہے سرو سے آزاد کا

دل میں جب آئے کہ اس نے سن لیا
نارسا کیوں نام ہے فریاد کا

آپ ہی گردش سے ہے مجبور چرخ
چاہنا ایسے سے کیا امداد کا

دیکھیے کثرت سے وحدت کو تو ہے
ایک جلوہ موجد و ایجاد کا

کوہ کن نے عمر بھر کاٹا پہاڑ
میں ہوں جویا چرخ کی بنیاد کا

بچ گیا تیر نگاہ یار سے
واقعی آئینہ ہے فولاد کا

بھولا ہے دین و دنیا آدمی
خاصہ ہے یہ بتوں کی یاد کا

پہلے نفغ صور سے آ جاؤں یاں
شک نہ ہو تم کو مری فریاد کا

ضربت تیشہ تھی پتھر کی لکیر
نام مٹتا ہی نہیں فرہاد کا

خود اڑا جاتا ہوں سالکؔ ضعف سے
آہ میں طوفاں ہے قوم عاد کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse