لطف اب زیست کا اے گردش ایام نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
لطف اب زیست کا اے گردش ایام نہیں
by امانت لکھنوی

لطف اب زیست کا اے گردش ایام نہیں
مے نہیں یار نہیں شیشہ نہیں جام نہیں

کب مجھے یاد رخ و زلف سیہ فام نہیں
کوئی شغل اس کے سوا صبح سے تا شام نہیں

ہر سخن پر مجھے دیتا ہے وہ بد خو دشنام
کون سی بات مری قابل انعام نہیں

نیک نامی میں دلا فرقۂ عشاق ہیں عشق
ہے وہ بدنام محبت میں جو بدنام نہیں

چہرۂ یار کے سودے میں کہا کرتا ہوں
رخ ہے یہ صبح نہیں زلف ہے یہ شام نہیں

بوسہ آنکھوں کا جو مانگا تو وہ ہنس کر بولے
دیکھ لو دور سے کھانے کے یہ بادام نہیں

حلقۂ زلف بتاں میں ہے بھری نکہت گل
اے دل اس لام میں بوئے گل اسلام نہیں

ابتدا عشق کی ہے دیکھ امانتؔ ہشیار
یہ وہ آغاز ہے جس کا کوئی انجام نہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse