لطف آمیز ہر انداز ستم ہوتا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
لطف آمیز ہر انداز ستم ہوتا ہے  (1930) 
by سید واجد علی فرخ بنارسی

لطف آمیز ہر انداز ستم ہوتا ہے
درد بیمار نہ بڑھتا ہے نہ کم ہوتا ہے

بے قراروں کو نہیں راہ طلب میں مشکل
اک تڑپ میں حد منزل پہ قدم ہوتا ہے

دیکھتا ہے جو مرا حال وہ رو دیتا ہے
میرے پردے میں زمانہ پہ ستم ہوتا ہے

خوگر جور کو آزار میں بھی راحت ہے
دل تڑپتا ہے سوا جور جو کم ہوتا ہے

سننے والے ادھر آ دیکھ وہ وقت آ پہونچا
کہ اشاروں میں بیاں قصۂ غم ہوتا ہے

کیا قیامت ہے وہی دشمن جاں ہوتے ہیں
جن نگاہوں میں کچھ انداز کرم ہوتا ہے

تپش دل سے ہے ہنگامۂ ہستی بیدار
روح سو جاتی ہے کچھ درد جو کم ہوتا ہے

عجب آرام سے ہوں ترک تمنا کر کے
اب نہ ہوتی ہے خوشی مجھ کو نہ غم ہوتا ہے

کیف جو اصل میں ہے روح نشاط اے فرخؔ
وقت آخر وہی سرمایۂ غم ہوتا ہے

This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries).

Public domainPublic domainfalsefalse