لذت غم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
لذت غم
by عزیز لکھنوی

گو گلستان جہاں پر میری نظریں کم پڑیں
اور پڑیں بھی تو خدا شاہد بہ چشم نم پڑیں
کر رہی تھی فصل گل جب راز قدرت آشکار
جب اگلتی تھی زمیں گنجینہ ہائے پر بہار
خون کے آنسو بھرے تھے دیدۂ نمناک میں
مختلف شکلیں تھیں غم کی چہرۂ غم ناک میں
فطرتاً دل میں نہ تھا میرے کبھی ارمان عیش
بند کر لیتا تھا آنکھیں دیکھ کر سامان عیش
کیا کہوں اے ہم نفس سیر چمن کی داستاں
گل تھے جب شبنم بکف آنکھیں تھیں جس دن خوں چکاں
آبشاروں کے مقابل بیٹھ کر رویا ہوں میں
خار صحرا کے بچھا کر چین سے سویا ہوں میں
صبح کو جب کروٹیں لیتی تھیں نہریں باغ میں
کیا کہوں کیسی چمک اٹھتی تھی دل کے داغ میں
میں نے دیکھی ہیں یہاں تاروں بھری راتیں بہت
اور کی ہیں فطرت خاموش سے باتیں بہت
کیا بتاؤں دل میں میرے ایک برچھی سی گڑی
صبح کو پہلی کرن سورج کی جب مجھ پر پڑی
میرے نظارے میں مضمر تھا مرا حال تباہ
آبلہ بن کر ابھر آتی تھی میری ہر نگاہ
رات کی تاریکیوں میں دل بہلتا تھا کبھی
پر خطر ویرانیوں میں میں ٹہلتا تھا کبھی
کیا بتاؤں میں بھڑک اٹھتے تھے کیوں کر دل کے داغ
جب چمن کرتا تھا روشن تازہ کلیوں کے چراغ
اشک باری میں بسر دنیا کی راتیں میں نے کیں
بے کسی میں ایک اک ذرے سے باتیں میں نے کیں
ڈبڈبا آتی تھیں آنکھیں کوئی ہنستا تھا اگر
تھی نشاط زندگی میری نظر میں پر خطر

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse