لذت عرفاں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
لذت عرفاں
by ز خ ش

رنگ فطرت ہے وجہ حیرانی
عقل ہے اور حیائے نادانی
رازداں مدعا کو کہتے ہیں
حسن الفت کا داغ پیشانی
حسن باقی نے دل کو کھینچ لیا
رخصت اے حسن ہستئ فانی
دل ہے وقف رجائے رحم و کرم
جاں ہے نذر رضائے ربانی
اب میں سمجھی کہ ہے فنائے خودی
انبساط بہشت لافانی
غم نہ کر ہے نقیب ابر بہار
خشکیٔ موسم زمستانی
دل صد پارہ کے الم گن لوں
دیکھی جائے گی سبحہ گردانی
کر سکے طے نہ ملک عرفاں کو
رومی و مغربی و کرمانی
دورئ بزم دوست کے غم میں
محو افغاں ہے اک افغانی
عرش کے کنگرے پہ طائر قدس
رات کرتا تھا یوں خوش الحانی
کہ ہے انساں طلسم شان خدا
قدر اپنی نہ اس نے پہچانی
بند کیں اس نے جب ذرا آنکھیں
کھل گیا راز بزم امکانی
چارۂ روح فلسفی ہے نہ شیخ
ایک وہمی ہے ایک خفقانی
کثرت این و آں میں وحدت دوست
کنج نایاب کی فراوانی
شیخ رنج بیاں کا ڈر نہ کرے
لا بیاں ہے یہ کیف وجدانی
متشکک ہے اور شکایت ہجر
نزہت اور شکر لطف پنہانی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse