لب چپ ہیں تو کیا دل گلہ پرداز نہیں ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
لب چپ ہیں تو کیا دل گلہ پرداز نہیں ہے
by شوق قدوائی

لب چپ ہیں تو کیا دل گلہ پرداز نہیں ہے
سب کچھ ہے خموشی میں اک آواز نہیں ہے

کتنا ہی وہ جھڑکیں میں کہے جاتا ہوں اپنی
غیرت مری اب کچھ خلل انداز نہیں ہے

پہونچوں گا ضرور آج میں اس شوخ کے گھر میں
دیوار تو نیچی ہے جو در باز نہیں ہے

اس سمت مرض عشق کا انجام کو پہونچا
اس سمت توجہ کا بھی آغاز نہیں ہے

کیا سادہ دلی ہے کہ تری چین جبیں کو
میں ناز سمجھتا ہوں مگر ناز نہیں ہے

مرنا تھا کہ صحت مرض عشق سے پائی
اب کچھ بھی طبیعت ناساز نہیں ہے

کیوں سچ یہ کہا اس نے کہ الفت نہیں مجھ سے
یہ عیب ہی ظالم میں کہ دم باز نہیں ہے

روتے ہوئے جینے سے اجل عشق میں اچھی
مردے میں یہ خوبی ہے کہ غماز نہیں ہے

ذلت مجھے منظور مگر آؤں ترے گھر
کیا حرج محبت کا جو اعزاز نہیں ہے

کیوں بیٹھے ہیں ہم وعدۂ محبوب پہ خوش خوش
کیا کھوئے تلون بھی در انداز نہیں ہے

اے شوقؔ کہے دیتی ہے کچھ شکل خموشی
چپ کیوں ہو اگر دل میں کوئی راز نہیں ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse