Jump to content

لب پہ آئی ہوئی یہ جان پھرے

From Wikisource
لب پہ آئی ہوئی یہ جان پھرے
by انشاء اللہ خان انشا
294599لب پہ آئی ہوئی یہ جان پھرےانشاء اللہ خان انشا

لب پہ آئی ہوئی یہ جان پھرے
یار گر اس طرف کو آن پھرے

چین کیا ہو ہمیں جب آٹھ پہر
اپنے آنکھوں میں وہ جوان پھرے

خون عاشق چھٹا کہ ہے لازم
تیرے تلوار پر یہ سان پھرے

ساقیا آج جام صہبا پر
کیوں نہ لہراتی اپنی جان پھرے

ہچکیاں لی ہے اس طرح بط مے
جس طرح گٹکری میں تان پھرے

یا تو وہ عہد تھے کہ ہم ہرگز
نہ پھریں گے اگر جہان پھرے

آئے اب روکے ہو معاذ اللہ
آپ سے شخص کی زبان پھرے

روٹھ کر اٹھ چلے تھے انشاؔ سے
بارے پھر ہو کے مہربان پھرے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.