لب پہ آئی ہوئی یہ جان پھرے
Appearance
لب پہ آئی ہوئی یہ جان پھرے
یار گر اس طرف کو آن پھرے
چین کیا ہو ہمیں جب آٹھ پہر
اپنے آنکھوں میں وہ جوان پھرے
خون عاشق چھٹا کہ ہے لازم
تیرے تلوار پر یہ سان پھرے
ساقیا آج جام صہبا پر
کیوں نہ لہراتی اپنی جان پھرے
ہچکیاں لی ہے اس طرح بط مے
جس طرح گٹکری میں تان پھرے
یا تو وہ عہد تھے کہ ہم ہرگز
نہ پھریں گے اگر جہان پھرے
آئے اب روکے ہو معاذ اللہ
آپ سے شخص کی زبان پھرے
روٹھ کر اٹھ چلے تھے انشاؔ سے
بارے پھر ہو کے مہربان پھرے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |