Jump to content

لب ساغر سے سن لو زاہدو تقریر مے میخانہ

From Wikisource
لب ساغر سے سن لو زاہدو تقریر مے میخانہ
by برجموہن دتاتریہ کیفی
318373لب ساغر سے سن لو زاہدو تقریر مے میخانہبرجموہن دتاتریہ کیفی

لب ساغر سے سن لو زاہدو تقریر مے میخانہ
شکست توبہ ہی ہے یا نئی تعمیر مے خانہ

ازل سے اس پہ رحمت ہے ابد تک اس پہ رحمت ہو
رقم ہے خط جام بادہ میں تقدیر مے خانہ

تو کیا اے زاہد خشک اس کی عظمت جان سکتا ہے
قلم سے موج کوثر کے کھچی تصویر مے خانہ

یہ مے سجادہ رنگیں کن گرت پیر مغاں گوید
کہ دانائے رموز دو جہاں ہے پیر مے خانہ

ملا پاؤ گے اس کا سلسلہ تسنیم و کوثر سے
بہت طول و طویل اے شیخ ہے زنجیر مے خانہ

بنا ہے شیشۂ مے سر بسر آئینۂ محشر
بری زہد و ریا سے ہے جوان پیر مے خانہ

تو ساری عمر اب ماتھا رگڑتا رہ کڑا کے کر
نہ ٹالے سے ٹلے اے شیخ یہ تعزیر مے خانہ

دہائی ساقیٔ کوثر کی یہ ہیں نفس کے بندے
جو وصل حور کی خاطر کریں تحقیر مے خانہ

حباب خط جام و قلقل مینا سے ثابت ہے
وہ ہے تسبیح مے خانہ یہ ہے تکبیر مے خانہ

گرا جو خشت خم پر سر لب کوثر نے چوما ہے
کہ ہے تقصیر مے خانہ ہی میں توقیر مے خانہ

نہ کیوں ہر قطرۂ مے مہر کی آنکھوں کا تارا ہو
کہ برق طور کی ہے اک چمک تنویر مے خانہ

پڑی ہے اک نظر جس پر وہ بے خود ہو گیا کیفیؔ
نگاہ مست ساقی میں ہے کیا تاثیر مے خانہ


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.