لب بہ لب نبت العنب ہر دم رہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
لب بہ لب نبت العنب ہر دم رہے
by شاد لکھنوی

لب بہ لب نبت العنب ہر دم رہے
دور دور جام مے جم جم رہے

ذکر قمری بھی جو کرتے ہم رہے
اس سہی قامت کا بھرتے دم رہے

دود خط ہو یا دخان زلف ہو
جس جگہ دھونی رمائی رم رہے

شوخ کیسا ہے عقیق سرخ ہو
لعل لب سے رنگ میں مدھم رہے

ناتوانی نے بٹھایا جس جگہ
پھر نہ اٹھے لیس ہو کر جم رہے

جب میں رویا بارش باراں ہوئی
کھل گیا منہ اشک جس دم تھم رہے

شادؔ پیچھا کر کے غول نفس کا
راہ حق بھولے بھٹکتے ہم رہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse