لبریز حقیقت گو افسانۂ موسیٰ ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
لبریز حقیقت گو افسانۂ موسیٰ ہے
by وحشت کلکتوی

لبریز حقیقت گو افسانۂ موسیٰ ہے
اے حسن حجاب آرا کس نے تجھے دیکھا ہے

محفل سی سجائی ہے دیدار کی حسرت نے
ہر چند ترا جلوہ محبوب تماشا ہے

مٹتا ہے کبھی دل سے نقش اس کی محبت کا
ناکام تمنا بھی مجبور تمنا ہے

جذبات کی دنیا میں برپا ہے قیامت سی
اس حال میں رو پوشی کیا آپ کو زیبا ہے

ساقی تری محفل کو رنگین کیا جس نے
وہ خون ہے تقوے کا یا جلوۂ مینا ہے

اک شیوہ تغافل ہے اک عشوہ تجاہل ہے
غصہ ہے بجا تیرا شکوہ مرا بے جا ہے

یہ بے دلی اچھی ہے دیوانہ نہ بن وحشتؔ
انجام تمنا کا حسرت کے سوا کیا ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse