لباس یار کو میں پارہ پارہ کیا کرتا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
لباس یار کو میں پارہ پارہ کیا کرتا
by حیدر علی آتش

لباس یار کو میں پارہ پارہ کیا کرتا
قبائے گل سے اسے استعارہ کیا کرتا

بہار گل میں ہیں دریا کے جوش کی لہریں
بھلا میں کشتئ مے سے کنارہ کیا کرتا

نقاب الٹ کے جو منہ عاشقوں کو دکھلاتے
تمہیں کہو کہ تمہارا نظارہ کیا کرتا

سنا جو حال دل زار یار نے تو کہا
طبیب مرتے ہوئے کاہے چارہ کیا کرتا

ہلال عید کا ہر چند ہو جہاں مشتاق
تمہاری ابروؤں کا سا اشارہ کیا کرتا

حقیقت دہن یار کھولتا کیوں کر
نہفتہ راز کو میں آشکارہ کیا کرتا

قدم کو پیچھے رہ خوفناک عشق میں رکھ
یہ پہلے دیکھ لے دل ہے اشارہ کیا کرتا

خم شراب سے مجھ مست نے نہ منہ پھیرا
کنار آب سے پیاسا کنارہ کیا کرتا

بہار تھی جو وہ گل چہرہ یار بھی ہوتا
اکیلے جا کے چمن کا نظارہ کیا کرتا

گداز موم سے ہر استخواں کو پاتا ہوں
پھر اور سوزش دل کا حرارہ کیا کرتا

بڑا ہی خوار علاقہ ہے گلشن الفت
مری طرح کوئی اس میں اجارہ کیا کرتا

شراب خلد کی خاطر دہن ہے رکھتا صاف
وضو میں ورنہ یہ زاہد غرارہ کیا کرتا

شکستہ دل نہ ہو اس بت کے ناز سے کیوں کر
سلوک شیشہ سے ہے سنگ خارا کیا کرتا

بہار گل میں پیالہ لگا لیا منہ سے
شراب پینے کو میں استخارہ کیا کرتا

فقیر کو نہیں درکار شان امیروں کی
سر برہنہ سر گوشوارہ کیا کرتا

بہار گل میں تھا جامہ سے باہر اے آتشؔ
نہ کرتا میں جو گریباں کو پارہ کیا کرتا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse