لا مکاں نام ہے اجڑے ہوئے ویرانے کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
لا مکاں نام ہے اجڑے ہوئے ویرانے کا
by پنڈت جگموہن ناتھ رینا شوق

لا مکاں نام ہے اجڑے ہوئے ویرانے کا
ہو کے عالم میں ہے مسکن ترے دیوانے کا

شوق رسوا کوئی دیکھے ترے دیوانے کا
خود وہ آغاز بنا ہے کسی افسانے کا

جام دل بادۂ الفت سے بھرا رہتا ہے
واہ کیا ظرف ہے ٹوٹے ہوئے پیمانے کا

داستاں عشق کی ہے پوری سنائیں گے کلیم
قصہ طور تو اک باب ہے افسانے کا

شمع نے بزم میں جل جل کے جلایا آخر
آہ کیا حشر ہوا عشق میں پروانے کا

مستتر قلقل مینا میں ہے راز مستی
بھید کس طرح کھلے پھر ترے مستانے کا

حشر میں دیکھ کے مجمع لب کوثر ساقی
پھر گیا آنکھوں میں نقشہ ترے میخانے کا

ملتے ہی ساغر و شیشہ سے چھلک جاتا ہے
یہ بھی کیا دور ہے ساقی ترے پیمانے کا

کیا قیامت ہے کہ محشر میں بھی پرسش نہ ہوئی
حشر اب دیکھیے کیا ہو ترے دیوانے کا

صفحہ دل مرا آئینۂ رمز توحید
راز کونین خلاصہ مرے افسانے کا

شوقؔ اب کس لئے فکر مے و میخانہ ہے
بھرنے والا تو کوئی اور ہے پیمانے کا


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.