لا مکاں نام ہے اجڑے ہوئے ویرانے کا
لا مکاں نام ہے اجڑے ہوئے ویرانے کا
ہو کے عالم میں ہے مسکن ترے دیوانے کا
شوق رسوا کوئی دیکھے ترے دیوانے کا
خود وہ آغاز بنا ہے کسی افسانے کا
جام دل بادۂ الفت سے بھرا رہتا ہے
واہ کیا ظرف ہے ٹوٹے ہوئے پیمانے کا
داستاں عشق کی ہے پوری سنائیں گے کلیم
قصہ طور تو اک باب ہے افسانے کا
شمع نے بزم میں جل جل کے جلایا آخر
آہ کیا حشر ہوا عشق میں پروانے کا
مستتر قلقل مینا میں ہے راز مستی
بھید کس طرح کھلے پھر ترے مستانے کا
حشر میں دیکھ کے مجمع لب کوثر ساقی
پھر گیا آنکھوں میں نقشہ ترے میخانے کا
ملتے ہی ساغر و شیشہ سے چھلک جاتا ہے
یہ بھی کیا دور ہے ساقی ترے پیمانے کا
کیا قیامت ہے کہ محشر میں بھی پرسش نہ ہوئی
حشر اب دیکھیے کیا ہو ترے دیوانے کا
صفحہ دل مرا آئینۂ رمز توحید
راز کونین خلاصہ مرے افسانے کا
شوقؔ اب کس لئے فکر مے و میخانہ ہے
بھرنے والا تو کوئی اور ہے پیمانے کا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |