لاکھ لاکھ احسان جس نے درد پیدا کر دیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
لاکھ لاکھ احسان جس نے درد پیدا کر دیا
by آغا شاعر قزلباش

لاکھ لاکھ احسان جس نے درد پیدا کر دیا
جس نے اس دل کو ہتھیلی کا پھپھولا کر دیا

دیکھنا مغرب کی جانب یہ شفق کا پھولنا
ڈوبتے سورج نے سونے میں سہاگا کر دیا

زندگی اور موت میں اک عمر سے تھی کشمکش
وقت پر دو ہچکیوں نے پاک جھگڑا کر دیا

اک شرارہ سا قریب شمع جا کر مل گیا
آتش پروانہ نے شعلے کو دونا کر دیا

بلبل تصویر ہوں اب بولنا ہے ناگوار
تیری اس ہنگامہ آرائی نے چپکا کر دیا

اس کو کہتے ہیں لگی پروانے جل بجھ ڈوب مر
روتے روتے شمع نے آخر سویرا کر دیا

دے دیا آنکھیں لڑا کر اس پری پیکر نے جام
میں نشے میں چور تھا ہی اور اندھا کر دیا

کیا گرامی ہستیاں ہیں حضرت عثمانؔ و شادؔ
شاعرؔ ان دونوں نے دنیا میں اجالا کر دیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse