لاکھ دل مست ہو مستی کا عیاں راز نہ ہو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
لاکھ دل مست ہو مستی کا عیاں راز نہ ہو
by جلیل مانکپوری

لاکھ دل مست ہو مستی کا عیاں راز نہ ہو
یہ وہ شیشہ ہے کہ ٹوٹے بھی تو آواز نہ ہو

خوف ہے موسم گل میں کہ صبا کا جھونکا
طائر ہوش کے حق میں پر پرواز نہ ہو

دل بہت بلبل شیدا کا ہے نازک گلچیں
پھول گل زار کے یوں توڑ کہ آواز نہ ہو

کیا قیامت ہے وہ دل توڑ رہے ہیں میرا
اس گماں پر کہ چھپا اس میں کوئی راز نہ ہو

آئینہ ہاتھ میں ہے حسن کا نظارہ ہے
ان سے کہہ دو مری حالت نظر انداز نہ ہو

ہو کے وہ مست مئے ناز گلے لپٹے ہیں
ہوش کمبخت کہیں تفرقہ پرداز نہ ہو

اس گرفتار کی پوچھو نہ تڑپ جس کے لیے
در قفس کا ہو کھلا طاقت پرواز نہ ہو

اہل دل کو جو لٹاتی ہے صدا نغمے کی
پردۂ ساز میں پنہاں تری آواز نہ ہو

تھام لینے دو کلیجہ مجھے ہاتھوں سے جلیلؔ
قصۂ درد جگر کا ابھی آغاز نہ ہو

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse