لاوے خاطر میں ہمارے دل کو وہ مغرور کیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
لاوے خاطر میں ہمارے دل کو وہ مغرور کیا
by نظیر اکبر آبادی

لاوے خاطر میں ہمارے دل کو وہ مغرور کیا
جس کے آگے مہر کیا مہ کیا پری کیا حور کیا

دل نیا ہم نے لگایا ہے بتا دو مہرباں
اس کی ہے رہ کیا روش کیا رسم کیا دستور کیا

یاد ہوں عیاریاں جس کو بہت ہم کیا کریں
اس کے آگے مکر کیا جل کیا فسوں کیا زور کیا

یوں کہا ہم لیں گے بوسہ اب تو چھو کر زلف کو
بولا منہ کیا دست گہ کیا تاب کیا مقدور کیا

ہم کو چاہت ایک سی ہے اس پری رو سے نظیرؔ
روبرو کیا در قفا کیا متصل کیا دور کیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse