لازم ہے سوز عشق کا شعلہ عیاں نہ ہو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
لازم ہے سوز عشق کا شعلہ عیاں نہ ہو
by رجب علی بیگ سرور

لازم ہے سوز عشق کا شعلہ عیاں نہ ہو
جل بجھیے اس طرح سے کہ مطلق دھواں نہ ہو

زخم جگر کا وا کسی صورت وہاں نہ ہو
پیکان یار اس میں جو شکل زباں نہ ہو

اللہ رے بے حسی کہ جو دریا میں غرق ہوں
تالاب کی طرح کبھی پانی رواں نہ ہو

گل خندہ زن ہے چہچہے کرتی ہے عندلیب
پھیلی ہوئی چمن میں کہیں زعفراں نہ ہو

بھاگو یہاں سے یہ دل نالاں کی ہے صدا
بہکے ہو یارو یہ جرس کارواں نہ ہو

ہستی عدم سے ہے مری وحشت کی اک شلنگ
اے زلف یار پانو کی تو بیڑیاں نہ ہو

لینا بہ جاے فاتحہ تربت پہ نام یار
مرنے پہ یہ خیال ہے وہ بدگماں نہ ہو

ناقہ چلا ہے نجد میں لیلیٰ کا بے مہار
مجنوں کی بن پڑے گی اگر سارباں نہ ہو

چالوں سے چرخ کی یہ مرا عزم ہے سرورؔ
اس سر زمیں پہ جاؤں جہاں آسماں نہ ہو


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.