لائی نہیں پیام کوئی زلف یار سے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
لائی نہیں پیام کوئی زلف یار سے
by سراج الدین ظفر

لائی نہیں پیام کوئی زلف یار سے
مجھ کو شکایتیں ہیں نسیم بہار سے

کھیلا ہو جو درازیٔ گیسوئے یار سے
وہ کیا ڈرے گا طول شب انتظار سے

آہستہ اے نسیم کہ یہ زندگی مری
ملتی ہوئی ہے شمع سر رہ گزار سے

میرا ہی ایک عکس ہے کیا طور کیا کلیم
دیکھے کوئی مجھے نگہ اعتبار سے

اک داغ ہی سہی ٹھہر اے مرگ ناگہاں
لے جائیں کچھ تو عالم ناپائیدار سے

مجھ کو مٹائے گردش لیل و نہار کیا
باہر ہے عشق گردش لیل و نہار سے

وہ دل کے آئنے میں رہے اور مری نظر
آگے بڑھی نہ آئنہ اعتبار سے

ہم بیخودان عشق سے کیا پرسش بہار
پوچھو ہمارے پیرہن تار تار سے

میری طرح انہیں بھی نہ رسوا کرے ظفرؔ
ڈرتا ہوں اپنے نالۂ بے اختیار سے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse