لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے
by محمد ابراہیم ذوق

لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے
اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے

ہو عمر خضر بھی تو ہو معلوم وقت مرگ
ہم کیا رہے یہاں ابھی آئے ابھی چلے

ہم سے بھی اس بساط پہ کم ہوں گے بد قمار
جو چال ہم چلے سو نہایت بری چلے

بہتر تو ہے یہی کہ نہ دنیا سے دل لگے
پر کیا کریں جو کام نہ بے دل لگی چلے

لیلیٰ کا ناقہ دشت میں تاثیر عشق سے
سن کر فغان قیس بجائے حدی چلے

نازاں نہ ہو خرد پہ جو ہونا ہے ہو وہی
دانش تری نہ کچھ مری دانش وری چلے

دنیا نے کس کا راہ فنا میں دیا ہے ساتھ
تم بھی چلے چلو یوں ہی جب تک چلی چلے

جاتے ہوائے شوق میں ہیں اس چمن سے ذوقؔ
اپنی بلا سے باد صبا اب کبھی چلے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse