لائق وفا کے خلق و سزائے جفا ہوں میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
لائق وفا کے خلق و سزائے جفا ہوں میں
by قائم چاندپوری

لائق وفا کے خلق و سزائے جفا ہوں میں
جتنے ہیں یاں سو نیک ہیں جو کچھ برا ہوں میں

جا ہے کہ ہوں یہ لوگ ترے پاس اس جگہ
کب قابل عنایت و مہر و وفا ہوں میں

مجھ کو بتاں کی دید سے مت منع کر کہ شیخ
کیا جانے اس لباس میں کیا دیکھتا ہوں میں

آگے مرے نہ غیر سے گو تم نے بات کی
سرکار کی نظر کو تو پہچانتا ہوں میں

بیگانہ جن سے مل کے تو پیارے ہوا ہے یاں
ان سب میں اک بڑا تو ترا آشنا ہوں میں

پوچھو ہو مجھ سے تم کہ پیے گا بھی تو شراب
ایسا کہاں کا شیخ ہوں یا پارسا ہوں میں

جور سپہر و دوریٔ یاراں و روئے غیر
جو کچھ نہ دیکھنا تھا سو اب دیکھتا ہوں میں

آئینہ و غبار میں جوں یک دگر ہے ربط
جو پر کدر ہیں ان سے زیادہ صفا ہوں میں

قائمؔ حیات و مرگ بز و گاؤ میں ہیں نفع
اس مردمی کے شور پہ کس کام کا ہوں میں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.